tرک اسرائیل تعلقات کوئی نئی بات نہیں

اسرائیل تعلقات کوئی نئی بات نہیں 
رک اسرائیل تعلقات کوئی نئی بات نہیں بلکہ ترکی وہ واحد اسلامی ملک ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہت پرانے ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات 2010ء سے سرد مہری کا شکار تھے۔ ترکی واحد اسلامی ملک ہے جس میں اسرائیل کا سفارتخانہ موجود ہے ۔پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا ۔ اِس جنگ میں عرب ملکوں نے برطانیہ اور اُس کے اتحادیوں کا بھر پور ساتھ دیا۔
یہی وجہ ہے کہ کمال اتا ترک نہ صرف عربوں سے نفرت کرتے تھے بلکہ ترک حکمرانوں نے عربی زبان کوبھی اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ عرب ممالک خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں برطانیہ کی مدد نہ کرتے تو برطانیہ کا اسرائیل کے قیام کا خواب شاید اتنا آسانی سے پورا نہ ہوتا۔ کیونکہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا مقصد ہی اسرائیل کی غاصب ریاست قائم کرنا تھا۔

بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا سبب ہی اسرائیل بنا تو غلط نہ ہو گا۔ اسرائیل کے قیام اور اُس کے تحفظ میں مسلمانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔کچھ مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کچھ دن پہلے فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسمائیل ہنیہ نے کہا کہ کچھ رجعت پسند عربوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مظلوم فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے ۔

تعصب کی انتہا یہ ہے کہ کئی مسلما ن حکومتیں اسرائیل کے وجود کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں ۔یعنی وہ گریٹر اسرائیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ روان سال جنوری میں امریکہ نے ایک نام نہاد مشرق وسطی کا امن پلان پیش کیا جس کا مقصد گریٹر اسرائیل کے منصوبے کوعملی جامہ پہنانا ہے۔جسے ڈیل آف سنچری کا نام دیا گیا۔
اس گھناؤنے منصوبے پر تمام اسلامی ممالک خاموش رہے۔ صرف ایران نے اس کی بھر پور مذمت کی۔ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے تحت اسرائیل کی پارلیمینٹ میں موجود نقشے کو دیکھا جائے تو اُس میں شام ،عراق اور لبنان مکمل جبکہ مصر اور سعودی عرب کے شمالی علاقے شامل ہیں۔ یعنی امریکہ مشرق وسطیٰ کو صرف اسرائیلی ریاست بنانا چاہتا ہے ۔ اِن مسلمان ممالک کی سادگی کی انتہا یہ ہے کہ وہ یہ سب جانتے ہوئے بھی گریٹر اسرائیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔

غاصب اسرائیل کے نا پاک وجود کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں لاکھوں مسلمان لقمہ ء اجل بن چکے ہیں۔ پہلی عرب اسرائیل جنگ (1948 ء) ہو یا دوسری عرب اسرائیل جنگ، ایران عرا ق جنگ ہو یا صدام حکومت پر حملہ ،شام کی جنگ ہو یا یمن کی تباہ کاریاں، یہ تمام جنگیں اسرائیل کے تحفظ کے لیے لڑی گئیں ۔اِن جنگوں میں مسلمانوں کے قتل عام کی ایک طویل تاریخ رقم کی جا چکی ہے ۔
 مسلمانوں کے قتل عام کا یہ سلسلہ شام اور یمن میں ابھی تک جاری ہے ۔افسوس اِس بات کا ہے کہ اسرائیل کے تحفظ کے لیے مسلمان ہی مسلمان کا قتل عام کر رہا ہے ۔ جنگ شام اِس کی زندہ مثال ہے ۔ امریکہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو اسرائیل کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے شام پر جنگ مسلط کر رکھی ہے جس میں لاکھوں شامی مسلمان مارے جا چکے ہیں یا ہجرت کر چکے ہیں۔
مسلمانوں میں تعصب کی انتہا یہ ہے کہ وہ اِس جنگ میں امریکہ کی بھر پور حمایت کر رہے ہیں۔ یعنی و ہ اسرائیل کا تحفظ چاہتے ہیں۔ اِن ممالک میں ترکی بھی شامل ہے ۔جنگ شام میں اسرئیل کے تحفظ کیلئے شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف بھر پور پروپیگنڈا کیا گیا۔ جو کسی حد تک ناکام ہوچکا ہے۔ یہ مسلم ممالک شایدیہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل صرف فلسطینیوں کے لیے خطرہ ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ۔
اسرائیل نہ صرف مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کے لیے خطرہ ہے بلکہ تمام عالم ا سلام کے لیے خطرہ ہے ۔ 
آ ج کل پاکستان میں ارتغرل غازی کے نام سے ایک ڈرامہ دکھا یا جا رہا ہے ۔ اِس ڈرامے کو ترکی میں بنایا گیا۔تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ یہ ڈرامہ مسلمانوں میں ایمانی جذبے کو ابھارنے کے لیے دکھایا جا رہا ہے ۔ شاید یہ ڈرامہ خود طیب اردگان نے نہیں دیکھا ۔
اورشاید یہ ڈرامہ دوسرے ممالک کو دکھانے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ کیونکہ ترک صدر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے واضح ہے کہ ارتغرل غازی سے ترکوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔اِس ڈرامے میں جہا د کی ترغیب دی جا رہی ہے جبکہ خود ترک صدر امت مسلمہ کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ ترک صدر یہ بھول چکے ہیں کہ 2016 ء میں ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کے ذمہ دار امریکہ اور اُس کے اتحادی تھے۔
روس نے پہلے ہی ترکی کو بغاوت کے متعلق آگاہ کر دیا تھا۔ اُس بغاوت کے ماسٹر مائنڈ ترک رہنما فتح اللہ گولن کو امریکہ نے پنا ہ دی ہوئی تھی۔ 
ترک صدر کیوں بھول رہے ہیں کہ یہ وہی اسرائیل ہے جس کے قیام کے لیے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا ۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے لے کر 2016ء کی بغاوت تک اِن مغربی ممالک نے ہر وہ اقدام کیا جو ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کی تباہی کا سبب بن سکے ۔ ترک صدر کو ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا۔ vرک اسرائیل تعلقات کوئی نئی بات نہیں بلکہ ترکی وہ واحد اسلامی ملک ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہت پرانے ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات 2010ء سے سرد مہری کا شکار تھے۔ ترکی واحد اسلامی ملک ہے جس میں اسرائیل کا سفارتخانہ موجود ہے ۔پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا ۔ اِس جنگ میں عرب ملکوں نے برطانیہ اور اُس کے اتحادیوں کا بھر پور ساتھ دیا۔
یہی وجہ ہے کہ کمال اتا ترک نہ صرف عربوں سے نفرت کرتے تھے بلکہ ترک حکمرانوں نے عربی زبان کوبھی اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ عرب ممالک خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں برطانیہ کی مدد نہ کرتے تو برطانیہ کا اسرائیل کے قیام کا خواب شاید اتنا آسانی سے پورا نہ ہوتا۔ کیونکہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا مقصد ہی اسرائیل کی غاصب ریاست قائم کرنا تھا۔

بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا سبب ہی اسرائیل بنا تو غلط نہ ہو گا۔ اسرائیل کے قیام اور اُس کے تحفظ میں مسلمانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔کچھ مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کچھ دن پہلے فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسمائیل ہنیہ نے کہا کہ کچھ رجعت پسند عربوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مظلوم فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے ۔

تعصب کی انتہا یہ ہے کہ کئی مسلما ن حکومتیں اسرائیل کے وجود کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں ۔یعنی وہ گریٹر اسرائیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ روان سال جنوری میں امریکہ نے ایک نام نہاد مشرق وسطی کا امن پلان پیش کیا جس کا مقصد گریٹر اسرائیل کے منصوبے کوعملی جامہ پہنانا ہے۔جسے ڈیل آف سنچری کا نام دیا گیا۔
اس گھناؤنے منصوبے پر تمام اسلامی ممالک خاموش رہے۔ صرف ایران نے اس کی بھر پور مذمت کی۔ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے تحت اسرائیل کی پارلیمینٹ میں موجود نقشے کو دیکھا جائے تو اُس میں شام ،عراق اور لبنان مکمل جبکہ مصر اور سعودی عرب کے شمالی علاقے شامل ہیں۔ یعنی امریکہ مشرق وسطیٰ کو صرف اسرائیلی ریاست بنانا چاہتا ہے ۔ اِن مسلمان ممالک کی سادگی کی انتہا یہ ہے کہ وہ یہ سب جانتے ہوئے بھی گریٹر اسرائیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔

غاصب اسرائیل کے نا پاک وجود کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں لاکھوں مسلمان لقمہ ء اجل بن چکے ہیں۔ پہلی عرب اسرائیل جنگ (1948 ء) ہو یا دوسری عرب اسرائیل جنگ، ایران عرا ق جنگ ہو یا صدام حکومت پر حملہ ،شام کی جنگ ہو یا یمن کی تباہ کاریاں، یہ تمام جنگیں اسرائیل کے تحفظ کے لیے لڑی گئیں ۔اِن جنگوں میں مسلمانوں کے قتل عام کی ایک طویل تاریخ رقم کی جا چکی ہے ۔
 مسلمانوں کے قتل عام کا یہ سلسلہ شام اور یمن میں ابھی تک جاری ہے ۔افسوس اِس بات کا ہے کہ اسرائیل کے تحفظ کے لیے مسلمان ہی مسلمان کا قتل عام کر رہا ہے ۔ جنگ شام اِس کی زندہ مثال ہے ۔ امریکہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو اسرائیل کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے شام پر جنگ مسلط کر رکھی ہے جس میں لاکھوں شامی مسلمان مارے جا چکے ہیں یا ہجرت کر چکے ہیں۔
مسلمانوں میں تعصب کی انتہا یہ ہے کہ وہ اِس جنگ میں امریکہ کی بھر پور حمایت کر رہے ہیں۔ یعنی و ہ اسرائیل کا تحفظ چاہتے ہیں۔ اِن ممالک میں ترکی بھی شامل ہے ۔جنگ شام میں اسرئیل کے تحفظ کیلئے شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف بھر پور پروپیگنڈا کیا گیا۔ جو کسی حد تک ناکام ہوچکا ہے۔ یہ مسلم ممالک شایدیہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل صرف فلسطینیوں کے لیے خطرہ ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ۔
اسرائیل نہ صرف مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کے لیے خطرہ ہے بلکہ تمام عالم ا سلام کے لیے خطرہ ہے ۔ 
آ ج کل پاکستان میں ارتغرل غازی کے نام سے ایک ڈرامہ دکھا یا جا رہا ہے ۔ اِس ڈرامے کو ترکی میں بنایا گیا۔تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ یہ ڈرامہ مسلمانوں میں ایمانی جذبے کو ابھارنے کے لیے دکھایا جا رہا ہے ۔ شاید یہ ڈرامہ خود طیب اردگان نے نہیں دیکھا ۔
اورشاید یہ ڈرامہ دوسرے ممالک کو دکھانے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ کیونکہ ترک صدر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے واضح ہے کہ ارتغرل غازی سے ترکوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔اِس ڈرامے میں جہا د کی ترغیب دی جا رہی ہے جبکہ خود ترک صدر امت مسلمہ کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ ترک صدر یہ بھول چکے ہیں کہ 2016 ء میں ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کے ذمہ دار امریکہ اور اُس کے اتحادی تھے۔
روس نے پہلے ہی ترکی کو بغاوت کے متعلق آگاہ کر دیا تھا۔ اُس بغاوت کے ماسٹر مائنڈ ترک رہنما فتح اللہ گولن کو امریکہ نے پنا ہ دی ہوئی تھی۔ 

ترک صدر کیوں بھول رہے ہیں کہ یہ وہی اسرائیل ہے جس کے قیام کے لیے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا ۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے لے کر 2016ء کی بغاوت تک اِن مغربی ممالک نے ہر وہ اقدام کیا جو ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کی تباہی کا سبب بن سکے ۔ ترک صدر کو ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا۔ 

Comments

Popular posts from this blog

چٹاخ پٹاخ 😂😂😂