ہندوتو ہے ہی ہمارا دشمن،
ہندوتو ہے ہی ہمارا دشمن،
ہندوتو ہے ہی ہمارا دشمن، 1971میں بنگلہ دیش بھارت کی مداخلت کی وجہ سے بنا، بھارتی ہم سے بہت نفرت کرتے ہیں، ہمارے خلاف سازش ہورہی ہے، بھارت پاکستان کیخلاف جنگ شروع کرنے کا سوچ رہا ہے، اس سے قبل بھی تمام جنگیں بھارت نے ہی شروع کیں، ہم نے بھارت کیخلاف چاروں جنگیں جیتی ہیں، آزادی کے وقت ہجرت کرتے ہوئے صرف سکھ لوگوں نے ہی ہمارا قتل عام کیا جبکہ ہم نے انہیں کچھ نہیں کہا، قائداعظم نے کانگرس اس لیے چھوڑی کیونکہ انہیں سمجھ آگئی تھی کہ ہندو ہمارے خیر خواہ نہیں، علامہ اقبال ہندوؤں سے سخت نفرت کرتے تھے اس لیے آزاد ملک کی بات کی، ہم دہلی میں جھنڈا لہرا دیں گے،ہندوؤں نے شروع دن سے ہی ہم سے نفرت کی۔
۔۔ جی ہاں! یہ ہیں کچھ محاورے اور جھوٹ پر مبنی باتیں ہیں جو ہمیں شروع دن سے ہی بتائی جاتی ہیں اور انہیں ہمارے نصاب کا حصہ بھی بنا دیا گیا ہے، ہمارا بچہ اسکول میں جاکر پہلی بات یہی سیکھتا ہے کہ ہندوستان ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے اور وہ ہمارے خلاف سازشوں میں ملوث رہتا ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے چین اور بھارتی فوجیوں کی لداخ کے مقام پر کچھ آپس کی لڑائی چل رہی ہے جو کہ بہت جلد ختم بھی ہوجائے گی کیونکہ یہ پہلی بار نہیں کہ لداخ کے مقام پر بھارت اور چینی فوجیوں کے درمیان کچھ تنازع کھڑا ہوا ہو، اس سے قبل بھی کئی دفع تنازعات کھڑے ہوئے اور چونکہ وہ دونوں ملکوں کا اندرونی معاملہ تھا اس لیے یہ تنازعات زیادہ دیر تک چل نہ سکے، اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا یہ تنازع زیادہ سے زیادہ 15دن چلے گا اور بات ختم ہوجائے گی۔
لیکن جب سے یہ تنازع شروع ہوا ہمارے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی گئی اور تاثر دیا گیا کہ غزوہ ہند شروع ہوگئی ہے لہذاٰ اب بھارت کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔
غیر سنجیدگی تو یہاں تک ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کی جانب سے یہاں تک بھی لکھا گیا کہ مبارک ہو! چین نے بھارت کو عبرتناک شکست دے دی ہے۔ یہ باتیں صاف ظاہر کرتی ہیں کہ ہم لوگ اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔
ہم لوگوں کے نزدیک یہ باتیں معنی نہیں رکھتیں کہ ہم دنیا کے ممالک کی اس لسٹ میں دوسرے نمبر پر ہیں جہاں سب سے کم بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ بچے اسکولوں میں داخلہ نہیں لے پاتے اور بنیادی تعلیم بھی حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی ہمارے ملک میں 11کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں دو وقت کا کھانا بھی نہیں مل پاتا، ہمسایہ ملک میں بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں جہاں غربت بہت زیادہ ہے۔
لیکن ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارت کا تباہ و بربادہونا ان سب مسائل سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
اصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ یہ نفرت کب اور کہاں سے شروع ہوئی؟ اس بات میں کوئی 2رائے نہیں کہ قائداعظم شروع سے ہی ایک متحد ہندوستان چاہتے تھے اور آخر تک یہی کوشش کرتے رہے کہ ہم لوگ ایک ساتھ امن اور محبت سے ایک ہی ملک میں رہیں لیکن کانگرس نے ایسا نہ مانا اور علیحدہ ملک کی بات پر زور دیا۔
جہاں تک بات قائداعظم کی کانگریس چھوڑنے کی ہے تو اس کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ تحریک خلافت کے دوران جب گاندھی نے مسلمانوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور زور دیا کہ انگریزوں سے لڑ ا جائے تو قائداعظم کو گاندھی کی انگریزوں کیخلاف لڑنے کی حکمت عملی پسند نہ آئی اور انہوں نے کانگریس کو خیر آباد کہہ دیا۔ یہی منشور آل انڈیا مسلم لیگ کا تھا جس نے نہ صرف ہندوؤں سے بہتر تعلقات پر زور دیا بلکہ مسلمانوں کو بار بار کہا کہ برصغیر میں موجود تمام مذاہب کے لوگوں سے بہتر تعلقات قائم کیے جائیں۔
ہماری مطالعہ پاکستان کی کتاب میں محمد بن قاسم سمیت ان غیر ملکی حملہ آوروں کو ہیرو بنا کر تو پیش کردیا گیا جو یہاں حملہ کرنے اور پیسا کمانے کی غرض سے آئے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی مقامی ہیرو کا ہماری کتاب میں کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ یہی بتایا جاتا ہے کہ ہندو شروع دن سے ہی ہمارے دشمن ہیں۔ اگر مقامی ہیرو کی بات کی جائے تو ہم بھگت سنگھ کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہیں برصغیر کی آزادی مانگنے پر بھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
پھانسی دینے سے قبل بھگت سنگھ نے جو آخری الفاظ بیان کیے وہ شاید ہی کوئی بھول سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہندو اس لیے پھانسی کے پھندے پر چڑھتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک اس کو اس کے بدلے دوسرا جنم ملے گا جو اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا جبکہ مسلمان اس غرض سے پھانسی کے پھندے پر چڑھتا ہے کہ اسے اس کے بدلے جنت ملے گی جو دنیا سے بہت بہتر مقام ہے جب کہ میں تو صرف اس لیے پھانسی کے پھندے پر چڑھ رہا ہوں کہ میرے ملک برصغیر کو آزادی مل جائے۔
''
اگر ہم پاکستان اور بھارت کی آپس میں پیار، محبت کی بات کر رہے ہیں تو ادھم سنگھ کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھ لوگوں پر گولیاں چلانے والے انگریز سپاہیوں کو جان سے مار دیا اور جب برطانیہ میں ان سے یہ سوال ہوا ہے کہ تمہارا نام کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا نام ''محمد رام سنگھ'' ہے۔۔۔ اصل پیغام یہ تھا کہ ہم سب آپس میں بھائی ہیں اور برصغیر کی آزادی کیلئے متحد ہو کر جنگ لر رہے ہیں۔
افسوس! ان اصل ہیروز کا مطالعہ پاکستان کی کتاب میں کہیں ذکر نہیں البتہ حملہ آوروں اور خاص طور پر محمد بن قاسم کو ہیرو بنا کر دکھا یا گیا، جو کسی کی فریاد پر نہیں بلکہ تجارت کی غرض سے پیسا کمانے آیا اور ہم نے اسے اپنا ہیرو بنادیا۔
دو ایسے ہمسایہ ملک جہاں غربت سمیت بہت سے ایسے مسائل ہیں، ان تمام مسائل کو ایک ساتھ ملکر ہی ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ممالک جو 1 ہزار سال سے زائد جنگ لڑتے رہے ان کو بھی آخر میں صلح کرنی پڑی کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔
رپورٹس ہیں کہ کورونا وائرس کے باعث بھارت کی کچھ ریاستوں میں ایک بیڈ پر 2،2 مریض ہیں جبکہ پاکستان کے حوالے سے بھی کچھ ایسی ہی اطلاعات ہیں کہ مبینہ طور پر ملک کے دو بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں جگہ کم پڑگئی ہے، ان حالات میں بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کے مدد کی جائے ہم لوگوں نے جنگ شروع کرنے کی باتیں کرنا شروع کردی ہیں اور شدید نفرتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ان سب مسائل کا ملکر مقابلہ کرنا ہوگا، اور جس دن ہمارے دلوں سے ایک دوسروں کیخلاف نفرت ختم ہوجائے گی، وہی دن برصغیر کی ترقی کا دن ہوگا۔۔۔
عظیم شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے کہ:
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
لیکن ان دونوں ملکوں میں امریکا کا ڈیرا ہے
ہندوتو ہے ہی ہمارا دشمن، 1971میں بنگلہ دیش بھارت کی مداخلت کی وجہ سے بنا، بھارتی ہم سے بہت نفرت کرتے ہیں، ہمارے خلاف سازش ہورہی ہے، بھارت پاکستان کیخلاف جنگ شروع کرنے کا سوچ رہا ہے، اس سے قبل بھی تمام جنگیں بھارت نے ہی شروع کیں، ہم نے بھارت کیخلاف چاروں جنگیں جیتی ہیں، آزادی کے وقت ہجرت کرتے ہوئے صرف سکھ لوگوں نے ہی ہمارا قتل عام کیا جبکہ ہم نے انہیں کچھ نہیں کہا، قائداعظم نے کانگرس اس لیے چھوڑی کیونکہ انہیں سمجھ آگئی تھی کہ ہندو ہمارے خیر خواہ نہیں، علامہ اقبال ہندوؤں سے سخت نفرت کرتے تھے اس لیے آزاد ملک کی بات کی، ہم دہلی میں جھنڈا لہرا دیں گے،ہندوؤں نے شروع دن سے ہی ہم سے نفرت کی۔
۔۔ جی ہاں! یہ ہیں کچھ محاورے اور جھوٹ پر مبنی باتیں ہیں جو ہمیں شروع دن سے ہی بتائی جاتی ہیں اور انہیں ہمارے نصاب کا حصہ بھی بنا دیا گیا ہے، ہمارا بچہ اسکول میں جاکر پہلی بات یہی سیکھتا ہے کہ ہندوستان ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے اور وہ ہمارے خلاف سازشوں میں ملوث رہتا ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے چین اور بھارتی فوجیوں کی لداخ کے مقام پر کچھ آپس کی لڑائی چل رہی ہے جو کہ بہت جلد ختم بھی ہوجائے گی کیونکہ یہ پہلی بار نہیں کہ لداخ کے مقام پر بھارت اور چینی فوجیوں کے درمیان کچھ تنازع کھڑا ہوا ہو، اس سے قبل بھی کئی دفع تنازعات کھڑے ہوئے اور چونکہ وہ دونوں ملکوں کا اندرونی معاملہ تھا اس لیے یہ تنازعات زیادہ دیر تک چل نہ سکے، اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا یہ تنازع زیادہ سے زیادہ 15دن چلے گا اور بات ختم ہوجائے گی۔
لیکن جب سے یہ تنازع شروع ہوا ہمارے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی گئی اور تاثر دیا گیا کہ غزوہ ہند شروع ہوگئی ہے لہذاٰ اب بھارت کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔
غیر سنجیدگی تو یہاں تک ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کی جانب سے یہاں تک بھی لکھا گیا کہ مبارک ہو! چین نے بھارت کو عبرتناک شکست دے دی ہے۔ یہ باتیں صاف ظاہر کرتی ہیں کہ ہم لوگ اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔
ہم لوگوں کے نزدیک یہ باتیں معنی نہیں رکھتیں کہ ہم دنیا کے ممالک کی اس لسٹ میں دوسرے نمبر پر ہیں جہاں سب سے کم بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ بچے اسکولوں میں داخلہ نہیں لے پاتے اور بنیادی تعلیم بھی حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی ہمارے ملک میں 11کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں دو وقت کا کھانا بھی نہیں مل پاتا، ہمسایہ ملک میں بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں جہاں غربت بہت زیادہ ہے۔
لیکن ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارت کا تباہ و بربادہونا ان سب مسائل سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
اصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ یہ نفرت کب اور کہاں سے شروع ہوئی؟ اس بات میں کوئی 2رائے نہیں کہ قائداعظم شروع سے ہی ایک متحد ہندوستان چاہتے تھے اور آخر تک یہی کوشش کرتے رہے کہ ہم لوگ ایک ساتھ امن اور محبت سے ایک ہی ملک میں رہیں لیکن کانگرس نے ایسا نہ مانا اور علیحدہ ملک کی بات پر زور دیا۔
جہاں تک بات قائداعظم کی کانگریس چھوڑنے کی ہے تو اس کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ تحریک خلافت کے دوران جب گاندھی نے مسلمانوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور زور دیا کہ انگریزوں سے لڑ ا جائے تو قائداعظم کو گاندھی کی انگریزوں کیخلاف لڑنے کی حکمت عملی پسند نہ آئی اور انہوں نے کانگریس کو خیر آباد کہہ دیا۔ یہی منشور آل انڈیا مسلم لیگ کا تھا جس نے نہ صرف ہندوؤں سے بہتر تعلقات پر زور دیا بلکہ مسلمانوں کو بار بار کہا کہ برصغیر میں موجود تمام مذاہب کے لوگوں سے بہتر تعلقات قائم کیے جائیں۔
ہماری مطالعہ پاکستان کی کتاب میں محمد بن قاسم سمیت ان غیر ملکی حملہ آوروں کو ہیرو بنا کر تو پیش کردیا گیا جو یہاں حملہ کرنے اور پیسا کمانے کی غرض سے آئے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی مقامی ہیرو کا ہماری کتاب میں کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ یہی بتایا جاتا ہے کہ ہندو شروع دن سے ہی ہمارے دشمن ہیں۔ اگر مقامی ہیرو کی بات کی جائے تو ہم بھگت سنگھ کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہیں برصغیر کی آزادی مانگنے پر بھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
پھانسی دینے سے قبل بھگت سنگھ نے جو آخری الفاظ بیان کیے وہ شاید ہی کوئی بھول سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہندو اس لیے پھانسی کے پھندے پر چڑھتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک اس کو اس کے بدلے دوسرا جنم ملے گا جو اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا جبکہ مسلمان اس غرض سے پھانسی کے پھندے پر چڑھتا ہے کہ اسے اس کے بدلے جنت ملے گی جو دنیا سے بہت بہتر مقام ہے جب کہ میں تو صرف اس لیے پھانسی کے پھندے پر چڑھ رہا ہوں کہ میرے ملک برصغیر کو آزادی مل جائے۔
''
اگر ہم پاکستان اور بھارت کی آپس میں پیار، محبت کی بات کر رہے ہیں تو ادھم سنگھ کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھ لوگوں پر گولیاں چلانے والے انگریز سپاہیوں کو جان سے مار دیا اور جب برطانیہ میں ان سے یہ سوال ہوا ہے کہ تمہارا نام کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا نام ''محمد رام سنگھ'' ہے۔۔۔ اصل پیغام یہ تھا کہ ہم سب آپس میں بھائی ہیں اور برصغیر کی آزادی کیلئے متحد ہو کر جنگ لر رہے ہیں۔
افسوس! ان اصل ہیروز کا مطالعہ پاکستان کی کتاب میں کہیں ذکر نہیں البتہ حملہ آوروں اور خاص طور پر محمد بن قاسم کو ہیرو بنا کر دکھا یا گیا، جو کسی کی فریاد پر نہیں بلکہ تجارت کی غرض سے پیسا کمانے آیا اور ہم نے اسے اپنا ہیرو بنادیا۔
دو ایسے ہمسایہ ملک جہاں غربت سمیت بہت سے ایسے مسائل ہیں، ان تمام مسائل کو ایک ساتھ ملکر ہی ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ممالک جو 1 ہزار سال سے زائد جنگ لڑتے رہے ان کو بھی آخر میں صلح کرنی پڑی کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔
رپورٹس ہیں کہ کورونا وائرس کے باعث بھارت کی کچھ ریاستوں میں ایک بیڈ پر 2،2 مریض ہیں جبکہ پاکستان کے حوالے سے بھی کچھ ایسی ہی اطلاعات ہیں کہ مبینہ طور پر ملک کے دو بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں جگہ کم پڑگئی ہے، ان حالات میں بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کے مدد کی جائے ہم لوگوں نے جنگ شروع کرنے کی باتیں کرنا شروع کردی ہیں اور شدید نفرتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ان سب مسائل کا ملکر مقابلہ کرنا ہوگا، اور جس دن ہمارے دلوں سے ایک دوسروں کیخلاف نفرت ختم ہوجائے گی، وہی دن برصغیر کی ترقی کا دن ہوگا۔۔۔
عظیم شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے کہ:
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
لیکن ان دونوں ملکوں میں امریکا کا ڈیرا ہے
Comments
Post a Comment
Thanks For visiting