نکما وائرس۔۔۔۔۔!
ایک بات تو طے ہے کہ کورونا وائرس خواہ قدرتی ہو یا مصنوعی ۔ لیکن ہے بالکل نکما ۔
اسے وبا کا نام ضرور دیا گیا ہے لیکن اس میں وبا والی کوئی خصوصیت نہیں پائی جاتی ۔
میری جتنی عمر ہو چکی ہے اس میں میں نے کئی وبائی امراض دیکھے ہیں ۔
اس کرونا وائرس سے پہلے کبھی کوئی وبا ایسی نہیں گزری جس سے متعلق جاننے کے لیئے ہمیں ٹی وی لگانا پڑے یا کوئی انٹرنیشنل ویب سائٹ کھولنی پڑے ۔
وبا گھر گھر جاتی ہے اور اپنا تعارف خود کرواتی ہے ۔ لوگوں کو اپنے دوست احباب پڑوسی رشتے دار یا اپنے اہل خانہ سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ وبائی مرض پھیلا ہوا ہے ۔
آشوب چشم پھیلتا ہے تو آپ کو بس دو ہی قسم کے لوگ نظر آتے ہیں ۔ یا سوجی ہوئی آنکھ والے یا کالے چشمے والے ۔
ڈینگی کی وبا آئی تھی تو شائد ہی کوئی گھر بچا ہو جسے اس نے متاثر نہ کیا ۔
وبا اسی طرح کام کرتی ہے ۔ وبا اگر باصلاحیت ہو تو اس کو اس بات کی کوئی حاجت نہیں ہوتی کہ اس کی میڈیا پر ایڈورٹائزنگ کی جائے ۔
لیکن کرونا وائرس کا معاملہ ایسا نہیں ہے ۔ یقین کریں اب تو کرونا وائرس کی مسکینیت اور لاچاری پر ترس آنے لگ گیا ہے ۔
ایک طرف کرونا وائرس کی خطرناکی سے متعلق خبریں چل رہی ہیں ۔ دوسری طرف ڈاکٹروں کے ساتھ لڈیاں ڈالتے کرونا وائرس کے مریضوں کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں ۔
عام طور پر جب بندہ بیمار ہو تو وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے ۔ طبیعت زیادہ خراب ہو اور خود جانے کے قابل نہ ہو تو گھر والے لے جاتے ہیں ۔
لیکن کرونا وائرس کا معاملہ اس سے قطعی مختلف ہے ۔ آج اگر کسی کو خدشہ ہو کہ اسے کرونا وائرس ہو گیا ہے تو اس کے گھر والے بجائے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جا کر علاج کروانے کے اسے مشورہ دیتے ہیں کہ آپ کچھ عرصے کے لیئے انڈر گراؤنڈ ہو جائیں ۔ معاملہ دبنے کے بعد منظر عام پر آجایئے گا ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈبیلیو ایچ او نے کرونا وائرس کے مریضوں کے سر کی قیمت مقرر کر دی ہے ۔ اور یہ قیمت اتنی زیادہ ہے کہ اگر خذانخواستہ محض 25 فیصد پاکستانیوں کو ہی یہ مرض لاحق ہو جائے تو پاکستان کا سارا قرضہ اتر سکتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جنوری کے مہینے سے لے کر مارچ تک ہم اس انتظار میں رہے کہ لکشمی کی یہ دیوی ہمارے گھر کب آئے گی ۔ پھر جب ہمارے انتظار کی اخیر ہو گئی اور ڈبلیو ایچ او نے مال بانٹنا شروع کر دیا تو ہمارے صبر کا پیمانہ چھلک گیا اور ہمیں ایمرجنسی میں ایران سے وائرس متاثرہ زائرین امپورٹ کرنے پڑے ۔
اس کے بعد ہم سکون میں آگئے کہ اب باقی کام یہ وائرس خود کر لے گا ۔ لیکن ہمیں اندازہ نہ تھا کہ یہ وائرس انتہا درجے کا ہڈ حرام ہے ۔
ظاہر ہے وائرس کی یہ شہرت ہے کہ یہ ایک سے دو دو سے چار چار سے آٹھ یعنی روز افزوں دگنا ہوتا چلا جاتا ہے ۔
ہم نے احتیاطاً لاک ڈاؤن بھی کر دیا تاکہ جہاں ہماری مطلوبہ تعداد پوری ہو جائے وہیں وائرس کو بریک ماری جا سکے ۔
لیکن یہ نگوڑ مارا وائرس پاکستان میں اس رفتار سے پھیلا ہی نہیں جس رفتار میں امریکہ چائنا اسپین اور اٹلی میں پھیل رہا تھا ۔
گویا یہ لاٹری صرف انہی ملکوں کی لگی جہاں پہلے ہی مال کی بہتات ہے ۔
پھر مجبوراً ہمیں لوگوں کو پابند کرنا پڑا کہ وہ آٹھ بجے کے بجائے اب پانچ بجے ہی دکانیں بند کر دیا کریں ۔ دکانوں پر جو لوگ سکون سے خرید و فروخت کرتے تھے ان میں ایک بھگدڑ مچ گئی ۔ دکانوں پر چار بجے سے پانچ بجے تک رش لگ گیا ۔
اس پالیسی نے کام تو کیا لیکن وہ نتائج نہ دیئے جن کی توقع کی جا رہی تھی ۔
اب انتہائی مجبوری اور بے کسی کے عالم میں یہ فیصلہ لیا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم کر دیا جائے ۔ بازار کھول دیئے جائیں ۔ لیکن اس پابندی کے ساتھ کہ ہفتے میں صرف چار دن یعنی پیر منگل بدھ اور جمعرات کو دکانیں کھلیں گی وہ بھی صرف شام پانچ بجے تک ۔ یہ شائد کرونا وائرس کے ناغے کے ایام ہوتے ہیں یا ممکن ہے کہ ان دنوں کرونا وائرس شام کی ڈیوٹی کرتا ہو ۔
بازاروں کے داخلی راستوں پر گیٹ لگا کر راستہ تنگ بھی کیا گیا ہے تاکہ جو خواتین بازاروں میں سوشل ڈسٹینسنگ کی وجہ سے کسی سے ہاتھ بھی نہ ملائیں انہیں اس گیٹ پر پرائے مردوں سے زبردستی گلے ملوایا جا سکے ۔
آپ نے ایسے ناکے لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں پر بھی جگہ جگہ لگے دیکھے ہوں گے ۔ اچھی بھلی کھلی ڈلی سڑک پر بندہ پوری رفتار سے ڈرائیو کرتا جا رہا ہوتا ہے کہ اچانک آگے ٹریفک جام ہو جاتا ہے ۔ بندہ حیران ہوتا ہے کہ اتنے سخت لاک ڈاؤن میں ٹریفک کیوں جام ہے ۔ پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے وائرس کے خدشے کے پیش نظر پوری سڑک بلاک کر کے صرف ایک گاڑی کا راستہ کھلا چھوڑا ہے ۔ جہاں سے ایک ایک کر کے صرف گاڑیاں ہی گزر سکتی ہیں ۔ وائرس اتنے تنگ راستے سے گزرنے کی کوشش کرے گا تو پھنس جائے گا اور اسے پولیس ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کر لے گی ۔
بعض موٹر سائیکل سواروں کر روک کر ان کی جامہ تلاشی بھی لی جاتی رہی ۔ اللہ جانے اس تلاشی کے دوران ان میں سے کسی کی جیب سے کرونا وائرس برامد ہوا یا نہیں ۔
بحرحال حفاظتی انتظامات بہت اعلیٰ نوعیت کے تھے ۔ خصوصاً WHO کی طرف سے امداد کے اعلان کے بعد تو ان میں مزید بہتری آگئی ۔
اس دوران ہمارے محلے میں دو وفاتیں ہوئیں ۔ دونوں کی میتوں کے لیئے اہل خانہ کو ہسپتال والوں سے جھگڑا کرنا پڑا ۔ ہسپتال والے چاہتے تھے کہ مرنے والے کی وفات کی وجہ کرونا ڈیکلیئر کر کے میت ہسپتال کو ہی الاٹ کر دی جائے ۔ تاکہ ہسپتال والے اسے کرونا کے روایتی انداز میں دفنا سکیں ۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا کہ ایک ہارٹ فیل سے مرنے والا شخص کرونا ڈیکلیئر ہونے سے شہادت کا درجہ پا لیتا ۔ لیکن گھر والوں کو یہ جھوٹی شہادت منظور نہ تھی ۔ پھر ہسپتال والوں نے ایک خطیر رقم کی آفر بھی دی ۔ ساتھ سمجھایا بھی کہ دیکھو ٹھیک ہے وہ تمہارا ابا تھا مگر اب تو مر گیا ۔ تم دفناؤ یا ہم دفنائیں بات تو ایک ہی ہے ۔ تم کون سا اسے نیپال دفنا آؤ گے جہاں سے زندہ ہو کر لوٹ آئے گا ۔ سو ہمیں دے دو ۔ ہم اسے اعزاز کے ساتھ دفنائیں گے ۔
لیکن گھر والے بھی جانے کس مٹی سے بنے تھے ۔ اتنی اچھی اچھی آفرز ٹھکرا دیں ۔
میں نے پہلے عرض کی کہ جتنی رقم who کرونا وائرس متاثرین کے عوض اداروں کو دے رہی ہے اگر پاکستان کے پچیس فیصد لوگوں کو یہ مرض لاحق ہو جائے تو پاکستان کا سارا قرضہ اتر جائے ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرونا وائرس سے مرنے والوں کی جو آخری رسومات ویڈیوز کی شکل میں وائرل ہو رہی ہیں وہ کسی بھی شخص کو موت سے تائب کرنے کے لیئے کافی ہیں ۔
لوگ جب ایک تابوت میں بند میت کے سامنے خلائی لباس پہنے ڈاکٹرز کو اس کی نماز جنازہ پڑھتے دیکھتے ہیں تو مرنے سے تو کیا بیمار ہونے تک سے توبہ کر لیتے ہیں ۔
کئی ایسے عمر رسیدہ بزرگ ہیں جن کا اس سال مرنا طے شدہ تھا لیکن حالات کے پیش نظر انہوں نے ایک سال کی ایکسٹینشن لے لی ہے ۔
لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی آخری رسومات سے اللہ جانے ہماری آتما کو شانتی ملے گی بھی یا نہیں ۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ فی الحال مرنا کینسل کر دیا جائے ۔ آج کل مر صرف وہ رہا ہے جس کی کوئی انتہائی مجبوری ہو ۔
میرے ایک ڈاکٹر دوست بتاتے ہیں کہ ہم ایک مریض کی اوپن ہارٹ سرجری کر رہے تھے ۔ سینہ چاک کیا جا چکا تھا ۔ دل کی دھڑکن مشین کی مدد سے جاری تھی ۔ مریض کے بچنے کے امکانات صفر ہو چکے تھے ۔ مشین کی ٹونٹ ٹونٹ کو ایک لمبی سی ٹونٹ میں بدلنے میں بس چند ہی سیکنڈز باقی تھے ۔ ایسے میں ہمارے ایک سینئر ڈاکٹر آپریشن روم میں داخل ہوئے اور بولے ذرا چیک کر لو اسے کرونا بھی نہ ہو ۔ یہ سننا تھا کہ مریض جو تقریباً مر چکا تھا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور رونی صورت بنا کر ڈاکٹر سے بولا ۔ ڈاکٹر صاحب خدا دا واسطہ جے ۔ میرے کولوں قسم لے لوو جے کدی مینوں نزلہ زکام وی ہویا ہووے ۔ تسی سدھا ای کرونا پا دتا جے میرے تے ۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ وہ مریض اتنی جلدی صحتیاب ہوا کہ میڈیکل سائنس بھی حیران رہ گئی ۔
حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیئے ۔ حب الوطنی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ یقین کریں اگر مجھ ناچیز کو بھروسہ ہو کہ میری میت کے عوض ملنے والی رقم کو ہماری حکومت پاکستان کا قرضہ اتارنے میں صرف کرے گی تو میں اپنی میت اس کارخیر کے لیئے وقف کر جاؤں ۔ بے شک میری قسمت میں ٹرک کی ٹکر سے مرنا لکھا ہو ۔ مگر مجھے اپنے حکمرانوں کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے ۔ یہ کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کر ہی لیں گے کہ ایکسیڈنٹ سے ایک لمحہ پہلے متوفی کرونا وائرس کا شکار ہوا جس کی وجہ سے اس کی وفات ہو گئی ۔ وفات پا جانے کی وجہ سے متوفی سامنے سے آتے ٹرک کو نہ دیکھ پایا اور ایکسیڈنٹ ہو گیا اور پھر میت ٹرک کے نیچے آگئی ۔
اسے وبا کا نام ضرور دیا گیا ہے لیکن اس میں وبا والی کوئی خصوصیت نہیں پائی جاتی ۔
میری جتنی عمر ہو چکی ہے اس میں میں نے کئی وبائی امراض دیکھے ہیں ۔
اس کرونا وائرس سے پہلے کبھی کوئی وبا ایسی نہیں گزری جس سے متعلق جاننے کے لیئے ہمیں ٹی وی لگانا پڑے یا کوئی انٹرنیشنل ویب سائٹ کھولنی پڑے ۔
وبا گھر گھر جاتی ہے اور اپنا تعارف خود کرواتی ہے ۔ لوگوں کو اپنے دوست احباب پڑوسی رشتے دار یا اپنے اہل خانہ سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ وبائی مرض پھیلا ہوا ہے ۔
آشوب چشم پھیلتا ہے تو آپ کو بس دو ہی قسم کے لوگ نظر آتے ہیں ۔ یا سوجی ہوئی آنکھ والے یا کالے چشمے والے ۔
ڈینگی کی وبا آئی تھی تو شائد ہی کوئی گھر بچا ہو جسے اس نے متاثر نہ کیا ۔
وبا اسی طرح کام کرتی ہے ۔ وبا اگر باصلاحیت ہو تو اس کو اس بات کی کوئی حاجت نہیں ہوتی کہ اس کی میڈیا پر ایڈورٹائزنگ کی جائے ۔
لیکن کرونا وائرس کا معاملہ ایسا نہیں ہے ۔ یقین کریں اب تو کرونا وائرس کی مسکینیت اور لاچاری پر ترس آنے لگ گیا ہے ۔
ایک طرف کرونا وائرس کی خطرناکی سے متعلق خبریں چل رہی ہیں ۔ دوسری طرف ڈاکٹروں کے ساتھ لڈیاں ڈالتے کرونا وائرس کے مریضوں کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں ۔
عام طور پر جب بندہ بیمار ہو تو وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے ۔ طبیعت زیادہ خراب ہو اور خود جانے کے قابل نہ ہو تو گھر والے لے جاتے ہیں ۔
لیکن کرونا وائرس کا معاملہ اس سے قطعی مختلف ہے ۔ آج اگر کسی کو خدشہ ہو کہ اسے کرونا وائرس ہو گیا ہے تو اس کے گھر والے بجائے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جا کر علاج کروانے کے اسے مشورہ دیتے ہیں کہ آپ کچھ عرصے کے لیئے انڈر گراؤنڈ ہو جائیں ۔ معاملہ دبنے کے بعد منظر عام پر آجایئے گا ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈبیلیو ایچ او نے کرونا وائرس کے مریضوں کے سر کی قیمت مقرر کر دی ہے ۔ اور یہ قیمت اتنی زیادہ ہے کہ اگر خذانخواستہ محض 25 فیصد پاکستانیوں کو ہی یہ مرض لاحق ہو جائے تو پاکستان کا سارا قرضہ اتر سکتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جنوری کے مہینے سے لے کر مارچ تک ہم اس انتظار میں رہے کہ لکشمی کی یہ دیوی ہمارے گھر کب آئے گی ۔ پھر جب ہمارے انتظار کی اخیر ہو گئی اور ڈبلیو ایچ او نے مال بانٹنا شروع کر دیا تو ہمارے صبر کا پیمانہ چھلک گیا اور ہمیں ایمرجنسی میں ایران سے وائرس متاثرہ زائرین امپورٹ کرنے پڑے ۔
اس کے بعد ہم سکون میں آگئے کہ اب باقی کام یہ وائرس خود کر لے گا ۔ لیکن ہمیں اندازہ نہ تھا کہ یہ وائرس انتہا درجے کا ہڈ حرام ہے ۔
ظاہر ہے وائرس کی یہ شہرت ہے کہ یہ ایک سے دو دو سے چار چار سے آٹھ یعنی روز افزوں دگنا ہوتا چلا جاتا ہے ۔
ہم نے احتیاطاً لاک ڈاؤن بھی کر دیا تاکہ جہاں ہماری مطلوبہ تعداد پوری ہو جائے وہیں وائرس کو بریک ماری جا سکے ۔
لیکن یہ نگوڑ مارا وائرس پاکستان میں اس رفتار سے پھیلا ہی نہیں جس رفتار میں امریکہ چائنا اسپین اور اٹلی میں پھیل رہا تھا ۔
گویا یہ لاٹری صرف انہی ملکوں کی لگی جہاں پہلے ہی مال کی بہتات ہے ۔
پھر مجبوراً ہمیں لوگوں کو پابند کرنا پڑا کہ وہ آٹھ بجے کے بجائے اب پانچ بجے ہی دکانیں بند کر دیا کریں ۔ دکانوں پر جو لوگ سکون سے خرید و فروخت کرتے تھے ان میں ایک بھگدڑ مچ گئی ۔ دکانوں پر چار بجے سے پانچ بجے تک رش لگ گیا ۔
اس پالیسی نے کام تو کیا لیکن وہ نتائج نہ دیئے جن کی توقع کی جا رہی تھی ۔
اب انتہائی مجبوری اور بے کسی کے عالم میں یہ فیصلہ لیا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم کر دیا جائے ۔ بازار کھول دیئے جائیں ۔ لیکن اس پابندی کے ساتھ کہ ہفتے میں صرف چار دن یعنی پیر منگل بدھ اور جمعرات کو دکانیں کھلیں گی وہ بھی صرف شام پانچ بجے تک ۔ یہ شائد کرونا وائرس کے ناغے کے ایام ہوتے ہیں یا ممکن ہے کہ ان دنوں کرونا وائرس شام کی ڈیوٹی کرتا ہو ۔
بازاروں کے داخلی راستوں پر گیٹ لگا کر راستہ تنگ بھی کیا گیا ہے تاکہ جو خواتین بازاروں میں سوشل ڈسٹینسنگ کی وجہ سے کسی سے ہاتھ بھی نہ ملائیں انہیں اس گیٹ پر پرائے مردوں سے زبردستی گلے ملوایا جا سکے ۔
آپ نے ایسے ناکے لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں پر بھی جگہ جگہ لگے دیکھے ہوں گے ۔ اچھی بھلی کھلی ڈلی سڑک پر بندہ پوری رفتار سے ڈرائیو کرتا جا رہا ہوتا ہے کہ اچانک آگے ٹریفک جام ہو جاتا ہے ۔ بندہ حیران ہوتا ہے کہ اتنے سخت لاک ڈاؤن میں ٹریفک کیوں جام ہے ۔ پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے وائرس کے خدشے کے پیش نظر پوری سڑک بلاک کر کے صرف ایک گاڑی کا راستہ کھلا چھوڑا ہے ۔ جہاں سے ایک ایک کر کے صرف گاڑیاں ہی گزر سکتی ہیں ۔ وائرس اتنے تنگ راستے سے گزرنے کی کوشش کرے گا تو پھنس جائے گا اور اسے پولیس ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کر لے گی ۔
بعض موٹر سائیکل سواروں کر روک کر ان کی جامہ تلاشی بھی لی جاتی رہی ۔ اللہ جانے اس تلاشی کے دوران ان میں سے کسی کی جیب سے کرونا وائرس برامد ہوا یا نہیں ۔
بحرحال حفاظتی انتظامات بہت اعلیٰ نوعیت کے تھے ۔ خصوصاً WHO کی طرف سے امداد کے اعلان کے بعد تو ان میں مزید بہتری آگئی ۔
اس دوران ہمارے محلے میں دو وفاتیں ہوئیں ۔ دونوں کی میتوں کے لیئے اہل خانہ کو ہسپتال والوں سے جھگڑا کرنا پڑا ۔ ہسپتال والے چاہتے تھے کہ مرنے والے کی وفات کی وجہ کرونا ڈیکلیئر کر کے میت ہسپتال کو ہی الاٹ کر دی جائے ۔ تاکہ ہسپتال والے اسے کرونا کے روایتی انداز میں دفنا سکیں ۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا کہ ایک ہارٹ فیل سے مرنے والا شخص کرونا ڈیکلیئر ہونے سے شہادت کا درجہ پا لیتا ۔ لیکن گھر والوں کو یہ جھوٹی شہادت منظور نہ تھی ۔ پھر ہسپتال والوں نے ایک خطیر رقم کی آفر بھی دی ۔ ساتھ سمجھایا بھی کہ دیکھو ٹھیک ہے وہ تمہارا ابا تھا مگر اب تو مر گیا ۔ تم دفناؤ یا ہم دفنائیں بات تو ایک ہی ہے ۔ تم کون سا اسے نیپال دفنا آؤ گے جہاں سے زندہ ہو کر لوٹ آئے گا ۔ سو ہمیں دے دو ۔ ہم اسے اعزاز کے ساتھ دفنائیں گے ۔
لیکن گھر والے بھی جانے کس مٹی سے بنے تھے ۔ اتنی اچھی اچھی آفرز ٹھکرا دیں ۔
میں نے پہلے عرض کی کہ جتنی رقم who کرونا وائرس متاثرین کے عوض اداروں کو دے رہی ہے اگر پاکستان کے پچیس فیصد لوگوں کو یہ مرض لاحق ہو جائے تو پاکستان کا سارا قرضہ اتر جائے ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرونا وائرس سے مرنے والوں کی جو آخری رسومات ویڈیوز کی شکل میں وائرل ہو رہی ہیں وہ کسی بھی شخص کو موت سے تائب کرنے کے لیئے کافی ہیں ۔
لوگ جب ایک تابوت میں بند میت کے سامنے خلائی لباس پہنے ڈاکٹرز کو اس کی نماز جنازہ پڑھتے دیکھتے ہیں تو مرنے سے تو کیا بیمار ہونے تک سے توبہ کر لیتے ہیں ۔
کئی ایسے عمر رسیدہ بزرگ ہیں جن کا اس سال مرنا طے شدہ تھا لیکن حالات کے پیش نظر انہوں نے ایک سال کی ایکسٹینشن لے لی ہے ۔
لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی آخری رسومات سے اللہ جانے ہماری آتما کو شانتی ملے گی بھی یا نہیں ۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ فی الحال مرنا کینسل کر دیا جائے ۔ آج کل مر صرف وہ رہا ہے جس کی کوئی انتہائی مجبوری ہو ۔
میرے ایک ڈاکٹر دوست بتاتے ہیں کہ ہم ایک مریض کی اوپن ہارٹ سرجری کر رہے تھے ۔ سینہ چاک کیا جا چکا تھا ۔ دل کی دھڑکن مشین کی مدد سے جاری تھی ۔ مریض کے بچنے کے امکانات صفر ہو چکے تھے ۔ مشین کی ٹونٹ ٹونٹ کو ایک لمبی سی ٹونٹ میں بدلنے میں بس چند ہی سیکنڈز باقی تھے ۔ ایسے میں ہمارے ایک سینئر ڈاکٹر آپریشن روم میں داخل ہوئے اور بولے ذرا چیک کر لو اسے کرونا بھی نہ ہو ۔ یہ سننا تھا کہ مریض جو تقریباً مر چکا تھا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور رونی صورت بنا کر ڈاکٹر سے بولا ۔ ڈاکٹر صاحب خدا دا واسطہ جے ۔ میرے کولوں قسم لے لوو جے کدی مینوں نزلہ زکام وی ہویا ہووے ۔ تسی سدھا ای کرونا پا دتا جے میرے تے ۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ وہ مریض اتنی جلدی صحتیاب ہوا کہ میڈیکل سائنس بھی حیران رہ گئی ۔
حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیئے ۔ حب الوطنی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ یقین کریں اگر مجھ ناچیز کو بھروسہ ہو کہ میری میت کے عوض ملنے والی رقم کو ہماری حکومت پاکستان کا قرضہ اتارنے میں صرف کرے گی تو میں اپنی میت اس کارخیر کے لیئے وقف کر جاؤں ۔ بے شک میری قسمت میں ٹرک کی ٹکر سے مرنا لکھا ہو ۔ مگر مجھے اپنے حکمرانوں کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے ۔ یہ کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کر ہی لیں گے کہ ایکسیڈنٹ سے ایک لمحہ پہلے متوفی کرونا وائرس کا شکار ہوا جس کی وجہ سے اس کی وفات ہو گئی ۔ وفات پا جانے کی وجہ سے متوفی سامنے سے آتے ٹرک کو نہ دیکھ پایا اور ایکسیڈنٹ ہو گیا اور پھر میت ٹرک کے نیچے آگئی ۔
Comments
Post a Comment
Thanks For visiting